خواتین کی حیثیت دیگر اقوام اور مذاہب میںدیگر اقوام اور مذاہب میں

Khawateen

  اسلام بے اپنے ماننے والوں کو الجنة تحت أقدام الأمهات کی تعلیم دے کر عورت کی عزت و تکریم کو ایک معراج بخشی جبکہ Confucianism کے مطابق چین میں عورتیں بالترتیب باپ شوہر پھر شوہر کے انقال کے بعد اولاد کے حکموں کی پابند ہوا کرتی تھیں۔ ہندو مت میں عورت کے لئے کسی بھی قسم کی آزادی کا تصور ہی محال ہے ستی کی رسم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندو دھرم میں عورت کی کیا حیثیت رہی ہے ۔شوہر کے فوت ہوتے ہی گویا عورت زندہ در گور ہو جاتی ہے۔ وہ کبھی دوسری شادی نہیں کر سکتی ، اس کی قسمت میں طعن و تشنیع اور ذلت و تحقیر کے سوا کچھ نہ ہوتا ۔لہذا عورتیں شوہر کے ساتھ ستی ہو جاتیں تھی بصورت دیگربان کو گھر کی لونڈی اور خادمہ بن کر رہنا پڑتا۔ بدھ مت میں عورتیں شر و گناہ کے سر چشمے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ یہود و نصاری کے عقیدے کے مطابق عورت سقوط بشری اور خدائی لعنت کی ذمہ دار ہے۔ مکمل معاشرہ انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا جس کی وہ حقدار ہے۔ عصر قدیم میں اسے ہر طرح کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ان کی نظر میں عورت صرف مردو کی جدمت کے لئے خلق ہوئی ہے لہذا اسے تعلیم و تعلم اور دگر ثقافتی سر گرمیوں میں حصہ لینے کا کوئی حق نہ تھا حتی کہ ابھی قرون وسطی تک ان کی حالا بہت ناگفتہ بہ تھی انہیں اپنی ملکیت میں اپنے ولی یا شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ عورتوں کی کی محرومی کی یہ کیفیت ہو چکی تھی کہ ان کے تلعق سے یہ بات موضوعِ بحث بن چکی تھی کہ آیا عورت انسان ہے یا غیر انسان۔ عورت کے اندر روح بھی ہے یا محض گوشت ہوست کا بناہوا مشکل جسم۔ عورت کو انجیل پڑھنے کا حق نہ تگا کیونکہ وہ نجس تصور کی جاتی تھی اور یہی تصور ان کے دینی حتی کی سماجی معاملات میں محرومی کا سبب بنا۔ ان کے بڑے بڑے قدیم فلاسفہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عورت ہی آدم کو جنت سے نکوانے کا سبب بنی تھی۔ نیز اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ عورت فتنہ۔ فساد ارو کناہ کا منبع ہے اسے صرف اور صرف مردوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ جبکہ اسکام نے اس غلط تصور اور اعتقاد کی سختی سے مذمت کی ہے۔ عورت سامان تجارت کی طرح بازاروں میں فروخت کی جاتی تھی۔ اس کی حیثیت سان تجارت کی سی تھی یا پھر مردو کے لئے دلجوئی کاسامان۔ عورت کے سلسلے میں یہی صورت حال ہر جگہ عام تھی ۔ عرب ان سے ایک قدم آگے سماج میں ذلت کے خوف سے بیٹوں کو زندہ دوگور کر دیا کرتے تھے کیونکہ جنگوں کی کٹرت کی وجہ سے وہ نہیں چاہتے تھے کہ عورتوں کی عفت و ناموس بدنام ہو ۔ بأي ذنت قتلت وإذا الصحف نشرت عرب کے لوگ مردو کو عورتوں پر ترجیح دیتے تھے ۔ بچے کی پیدائش پر جوب بڑھ چڑھ کر خوشایں مناتے ۔ باپ اپنے بیٹوں کی طرف خود کو منسوب کرنا باعث فخر سمجھتے تھے اس کے برعکس بچی کی پیدائش کو اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے تھے۔ حتی کہ سماج میں بے عزتی اور فاقہ کے خوف سے اس کے قتل سے بھی گریز نہ کرتے ۔ لاتقتلوا آدلادکم خشية املاك.... الخ جريرة العرب پر جب اسکام کی کرن نمودار ہوئی تو اس نے عورت کا اس کا حق دلایا اسے کامل آزادی عطا کی اور کی کی حفاظت کی ضمانت دی۔ جملہ مراحل حیات میں مرد و زن دونوں کے حقوق متعین کئے۔ اور انہیں وہ سبھی کچھ عطا کیا جس سے وہ پہلے محروم تھی۔ نیز اس کے تحفظ کے لئے قیود و شرائط متعین کئے۔ اور لوگوں کو اس پر آمادہ کیا۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو بحیت انسان۔ ماں ۔ بیٹی۔ بیوی ایک پہچان دی نیز معاشرے کا ایک عضو بنا دیا تاکہ لوگ عورت کو موجب ننگ و عار نہ سمجھ کر اسے اللہ کاایک انعام و عطیہ سمجھیں۔ بیٹیوں کو دفن کرنے کے عمل کو حرام کر کے ایک جرم اور گناہ قرار دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقوق نسواں کے سچے پاسدار تھے ۔ آپ ایک خالص مصلح سچے رہبر و رہنما تھے جنہوں نے مظلومین اور کمزوروں کے حقوق کا دفاع کیا۔ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے بہت ساری قرآنی آیات ہیں جن کے ہمہ جہت اٹرات مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر عورت کو حق وراثت اور حق ملکیت عطا کرنا اور بوقت ضرورت اس میں تصرف کی اجازت ہونا ۔ موروث کے ترکے سے عورت کا شرعی طور ہر وارث بننا۔ یہ ایک ایسا مستقل حق ہے جو رحم مادر سے عورت کی تخلیق کے بعد سے ہی واجب ہو گیا جو ہر حال میں ادا کرںا ہے چاہے عورت فقیر ہو یا غنی۔ عقل و خرد صیحیح سالم ہو یا پاگل۔ چالاک ہو یا بیوقوف۔ بیٹی ہو یا بہن کسی کے لئے جائز نہیں کہ بکا عذر شرعی عورت کو اس حق سے محروم کر دے۔ لرجال نصیب ۔۔۔۔ نصیبا مقروضا مر دے مقابلے میں عورت کی نصف حق وراثت عورت کے ساتھ جسی بھی نوعیت کا ظلم و جور یا زیادتی نہیں ہے بلکہ عین انصاف ہے۔ کیونکہ نکاح میں عورت حق مہر ادا کرنے کی مجاز نہیں ہے بلکہ مرد عورت کو ادا کرتا ہے۔ اسی طرح نان و نفقہ اور لباس و سکن عورت کے ذمہ نہیں ہے بلکہ مرد اس ذمہ داری کو اٹھاتا ہے۔ اسی کے مثل مزید بہت ساری ذمہ داریاں جو صرف مرد ہی ادا کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے مرد کو عورت کا دوگنا حصہ متعین کیا ہے یہ الہی حکمت بالکل واضح ہے مرد ہر حال میں دمذمہ دارِ کل ہے چاہ عورت مالدار ہی کیوں نہ ہو۔۔ اسی طرح اسلام نے عورت کو یہ بھی حق دے رکھا ہے کہ وہ جبر کی شادی کو فسخ کرسکتی ہے اور شادی کے بعد بھی اپنا نام و پہچان برقرار رکھ سکتی ہے نیز اسے خلع کا حق بھی حاصل ہے ۔ اسلامی تاریخ میں بہت ساری عورتوں نے تعلیمی و ثقافتی میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ زوجہ رسول عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے مرویات نقل کیں نیز علم طب اور فقہ اسلامی میں مہارت رکھتی تھیں۔ ۔۔ آپ کی وفات کے بعد جنگ جمل میں عائشہ کی قیادت ہر جسی نیمے اعتراض نہیں کھا کہ آپ عورت ہیں۔ دور المرءة..... مذکورہ آیات کے مطابق عورت مرد کے مساوی درج رکھتی ہے۔ عورت کے اوپر بھی وہی دینی واجبات ہیں جو مردوں پر ہیں۔ اور ان دونوں کی تخلیق کا مقصد بھی ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔۔ وماخلت الجن والانس الا۔۔۔۔ اور اساعتبار سے بھی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے یہاں تیاری مقصود ہے موت کے بعد ایک ابدی زندگی کی۔ انسان کے لئے کسی بھی طرح کے نام و نمود عزت شہرت جاہ و جلال کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قآن میں بھی بار بار یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم دینا میں جتنا بھی وقت گزار لیں آخرت کے مقابلے کم ہی ہے۔ اس گزرے ہوئے وقت کی کوئی حیثیت نہیں۔۔ اگر کچھ اہم ہے تو وہ ہے ہماری شخصیت۔ اہم ہہ ہے کہ ہم دوسری کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اور کیسا رویہ اپناتے ہیں ۔ کیونکہ دین میں معاملات کی درستگی ہر بہت زور دیا گیا ہے۔ نیز اللہ کے عطا کردہ انعامات مین ہم کیسے تصرف کرتے ہیں۔ اسی سیاق میں گھر اور ہریوار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اور سیک مسقل کنبہ ایک نسل کی تربیت کے لئے بہت ہی ناگزیر ہے۔ کیونکہ وہی مستقبل کے معمار ہیں۔ وہی اس پیغام کو آگے تک منتقل کریں گے۔ حافظ ابراہیم کہتے ہیں ماں ایک مدرسہ ہے جسے اگر تیار کر لیا تو اس سے ایک اچھی نسل تیار ہوگی رہا عورت کا اجتماعی رول تو اسلام ایک لازمی عملی تقسیم کی تائید کرتا ہے اس تقسیم کے بموجب عورت گھر بنیادی ذمہ داریاں سنبھالے گی ایسے وقت میں مرد پر مالی ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔ گھر گرہستی کی ذمہ داری اور بحیثیت ماں بچے کی تربیت دونوں بہت اہم ذمہ داریاں ہیں ۔ فی الحقیقت عورت کا بحیثیت ایک ماں کے ذمہ داری نبھانا ایک بہت ہی اہم کام ہے۔ ایک ماں ہی ایک گھر کو بھی بہتر طریوے سے چلا سکتی اور اولاد کی تربیت سے سیک بہتر نسل پروان چڑھا سکتی ہے۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے