یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا


شریعت مطہرہ کے اصول و قوانین انسانی زندگی کے تمام شعبوں، عقائد ، عبادات ،معاملات اور اخلاق سب کو حاوی ہے ، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے ایک قسم کو پرسنل لاء (personal low) یعنی احوال شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے جو انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہے۔دوسری مشترک قانون (Common low) کے نام سے معروف ہے جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لیے یکساں ہوتاہے، اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں ، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، تمدن و ثقافت اور مال و زر سے ان کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہروی اور جرائم سے ، سب کا حل شریعت اسلامیہ میں یکساں طور پر موجود ہے۔

ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی جس میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے اس وقت سے پرسنل لاء پر عمل درآمد کی اجازت ہے جب کہ وطن عزیز سامراجی پنجہ میں جکڑا ہوا تھا ، چنانچہ اس وقت کے اکابر علماء کی مسلسل محنت و جد وجہد سے 1937ء میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا۔ ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی جدو جہد شروع ہوئی تو مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس زمانے میں جمعیت علماء اور کانگریس آزادی کی جدو جہد کرنے والی سب سے بڑی جماعتیں تھیں۔ چنانچہ کانگریس نے اپنے متعدد سالانہ اجلاسوں کی قراردادوں میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کا وعدہ کیا ۔لیکن آزادی کے بعد جب آئین مرتب ہوا تو اس میں اقلیتوں کے پرسنل لاء کے تحفظ کی متعلق ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا گیا بلکہ رہنما اصول کے حصے میں ایسی دفعہ شامل کی گئی جس سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی جا سکتی ہو۔ اس وقت بعض مسلمان قائدین نے ان دفعات کو لیکر اعتراض کیا تو دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر نے تسلی دینے کے لئے کہا کوئی حکومت اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کرکے مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتی، میرے خیال میں اگر کسی نے ایسا کیا تو ایسی حکومت پاگل ہی ہوگی۔اس طرح کی بات آتی گئی ، البتہ وقفے وقفے سے کومن سول کوڈ کے نفاذ کا راگ لایا جاتا رہا اور مشترکہ قانون کی یہ بلی کچھ دیر ٹہل کر اندر چلی گئی مگر اس وقت پوری شدت کے ساتھ یہ مسئلہ پھر منظر عام پر لایا جا رہا ہے بھارتی مسلمانوں کے لیے بہ حیثیت مسلمان اس وقت جو سب سے سنگین مسئلہ درپیش ہے، وہ یکساں سول کوڈ ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ خطرہ صرف مسلم پرسنل لاء کا نہیں بلکہ مسلمانوں کے نظام معاشرت اور ان کے ملی وجود اور تشخص کے بقاء کا ہے۔

ہندوستان میں "یونیفارم سول کوڈ” کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی ہدایات کے خلاف نکاح و طلاق جیسے معاملات انجام دینے ہونگے، وصیت اور وراثت کے معاملہ میں بھی انہیں مذہبی قانون کے بجاۓ دوسرے قوانین پر عمل کرنا ھوگا،اسی طرح دوسرے مذہب اور رسم ورواج کے پابند لوگوں کو بھی اپنا مذہب چھوڑنا ہوگا۔اپنے رواج کو مٹانا ہوگا اور نۓ قانون کا پابند ہونا پڑےگا۔ اس طرح یونیفارم سول کوڈ واضح طور پر "مسلم پرسنل لاء” سے مختلف ایک قانون ہے جسکے نفاذ کے بعد مسلم پرسنل لاء کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، گویا مسلم پرسنل لاء جس کی بنیاد قرآن و سنت ہے اور یونیفارم سول کوڈ کو یکجا نہیں کیا جاسکتا۔

غرض کہ حکومت کا یکساں سول کوڈ کا منصوبہ اور اس ملک کے پرامن فضا،خوشگوار ماحول اور آپسی خلوص و وفا کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔اس وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہوگا، ملک کی رنگا رنگ تہزیب متأثر ہوگی۔اور یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے ضمن میں دیگر مذاھب تہزیبیں بھی آئیں گی۔ اس طرح اس ملک کی خوشنمائی بگڑ جاۓ گی ، دوسروں کے لیے کچھ بھی ہو لیکن مسلمان کبھی اس کے نفاذ کو قبول نہیں کرےگا۔ کیونکہ یہ اس کی شریعت اور اسلام پر حملہ ہے اور اس کے اختیارات اور آزادی کو ختم کر دینا ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حکومت کے اس منصوبے کو ناکامیاب بناۓ۔آمین۔

فیصل بن استخار

متعلم: صفا شریعت کالج ڈومریا گنج

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے