جامع مسجد گیانواپی تاریخ کے آئینے میں

بنارس کی قدیم شاہی جامع مسجد گیان واپی ہندوستان کے طول و عرض میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

جارحیت پسند و فرقہ پرست عناصر نے بابری مسجد شہید کر دینے کے بعد اب بنارس کی اس تاریخی مسجد گیان واپی کے سلسلے میں بھی اپنے مذموم اور ناپاک عزائم کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ایک مشہور مقولہ "جھوٹ کو اتنا فروغ دو کہ خود بھی اس کے جھوٹ ہونے میں شبہ ہونے لگے” کے مطابق اس جھوٹ کو بھی برابر مشہور کیا جارہاہے کہ جامع مسجد گیانواپی مندر توڑ کر بنائی گئی ہے اس لئے اس دروغ گوئی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخی شواہد کی بنیاد پر مسجد کی تاریخی حیثیت اور اس ضمن میں کچھ دیگر ضروری باتوں سے عوام کو روشناس کرایا جائے۔

وجہ تسمیہ

عام تأثر یہ ہے کہ "گیانواپی” مسجد کا ہی نام ہے،حالانکہ یہ تأثر غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مسجد جہاں واقع ہے اس محلے کا نام گیان واپی ہے، اور اسی مناسبت سے یہ گیانواپی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔گیانواپی سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ گیان کا معنی”عقل و علم” اور واپی کے معنی باؤلی کے ہیں۔ بقول حضرت مولانا مفتی عبدالسلام نعمانی اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں یہ روایت مشہور ہے:

"گیانواپی محلے کا نام ہے اسی مناسبت سے مسجد اسی محلے کی طرف منسوب ہے، گیانواپی نام پڑنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ہندؤوں کے مہادیو جی گوبچشم ظاہر پتھر ہیں لیکن اپنی عقل کے زور سے ایک باؤلی میں (جو یہیں کسی جگہ تھی) چلے گئے پھر واپس نہیں ہوئے یہ روایت زبانی مشہور ہے” (تاریخ آثار بنارس ص٩٩)

عہد تاسیس

تاریخی اعتبار سے یقینی طور پر تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ اس مسجد کا اصل بانی کون ہے؟ اور اس کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا تاہم اتنا ضرور ہے کہ مغلیہ سلطنت کے بادشاہ جلال الدین محمد اکبر (م 1014ھ 1605ء) جن کا دور حکومت 1556ء سے 1605ء ہے اس دور میں بھی یہ جامع مسجد تھی اور اس میں باضابطہ نمازیں ادا کی جاتی رہیں۔اس کا ایک تاریخی ثبوت یہ ہے کہ اس دور میں بنارس کے ایک مشہور بزرگ،ولی کامل، قطب بنارس حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی (م1042ھ) پابندی سے نماز جمعہ کی ادائیگی اسی جامع مسجد میں فرماتے تھے۔

بہت سارے لوگوں کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد اورنگزیب عالمگیر (م1707ء) کے عہد حکومت میں رکھا گیا اور اس کے اصل بانی بھی وہی ہیں۔ جبکہ مختلف حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کے دور حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ شہنشاہ حضرت اورنگزیب عالمگیر نے 1068ھ مطابق 1658ء میں اس کی تعمیر نو کرائی لیکن درحقیقت یہ تعمیر اصل تعمیر نہیں ہے بلکہ پرانی بنیاد پر ازسر نو تعمیر تھی۔ اسی طرح مسجد سے برآمد ایک سنگی کتبے سے بھی کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہ مسجد عہد عالمگیر میں ہی تعمیر ہوئی۔ کتبہ کی عبارت اس طرح ہے:

"اول بحکم والا در۲ از جلوس حضرت عالمگیر خلد مکاں ایں جامع مسجد تعمیر شدہ بعدہ در ١٢٠٧ھ سید میراث علی متولی موروثی مسجد موصوفہ مرمت صحن وغیرہ نمود۔

اس کتبے کی عبارت سے ظاہر ہے کہ یہ 1207ھ میں نصب کیا گیا کہ یہ مسجد اورنگزیب عالمگیر کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد تعمیر ہوئی،لیکن تاریخی اعتبار سے اس کی تصدیق نہیں۔

اس کتبے میں ذکر سید میراث علی انگریزی دور حکومت میں جامع مسجد گیانواپی کے متولی تھے یہ کتبہ 1207ھ میں انہوں نے ہی وہاں نصب کرایا تھا۔(جامع مسجد گیانواپی تاریخ کے آئینے میں/ص4,8/ عبد الباطن نعمانی امام و خطیب گیانواپی مسجد)

لیکن موجودہ دور میں بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد فرقہ پرست طاقتیں یہ دعوی کر رہی ہیں کہ جامع مسجد گیانواپی مندر توڑ کر بنائی گئی ہے اور بار بار اس میں ASI(Archaeological Survey of India) کا سرو کرایا جا رہا ہے ،17مئی 2022 میں ASI نے سروے کیا،اس کیس میں ہندو درخواست گزار سوہن لال نے دعوی کیا کہ مسجد کے وضو خانہ میں جو فوارہ ہے وہ شیولنگ ہے۔عدالت نے یہ ہدایت بھی دی کہ وہاں کوئی وضو نہیں کریگا۔

عدالت نے نمازیوں کی تعداد میں تخفیف کر دی تھی اور کہا کہ صرف ۲۰ افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ASI کے سروے میں بتایا گیاکہ مسجد کے تہ خانے میں مندر ہونے کے اثرات ملے ہیں اس کے بعد ضلعی عدالت نے مسجد کے تہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی، اور پوجا کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔

افسوس ہمارے مسلم قائدین اور سربراہ،جمعیت علماء ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان مظلوم نہیں ہیں اور بڑے سکون سے ہیں،مسلم قائدین اور سربراہوں کو سب پتہ ہے،لیکن اپنے ذاتی مفادات اور حکومت کے ڈر کی وجہ سے وہ حکومت کی حمایت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے بیانات دیتے ہیں، اہم اور تاریخی مساجد کو مندروں میں تبدیل کیا جانا اور ان میں پوجا کیا جانا یہ اعمال دنیا کو چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ ہندوستان میں نہ صرف مسلمان مظلوم ہیں بلکہ ان کی مسجدیں بھی مظلوم ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم تمام لوگوں کی حفاظت فرمائے اور دشمنان اسلام کی سازشوں کو بینقاب کرے۔ آمین

ازقلم: فیصل استخار

متعلم صفا شریعت کالج ڈومریا گنج

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے