بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں



بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے حکم سے میر باقی نے 1527ء میں اتر پردیش کے مقام اجودھیا میں تعمیر کرائی تھی۔یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کی ایک شاہکار تھی۔

Bari Masjid Urduemoalla.com

مسجد کا ڈھانچہ

بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی بڑا اور اسکے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑیاں نصب تھیں۔اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسے بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔

الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھی۔ بابری مسجد 1992ء میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں شہید کر دی گئی۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں(وشو ہندو پریشد ،بجرنگ دل اور شیو سینا) کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لئے ایک تحریک چلائی تھی۔ تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلی رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندوستان میں تقریباً دوہزار مسلمانوں کو مسلم کش فسادات میں مار دیا گیا۔بابری مسجد کے انہدام سے پہلے موجودہ حکومت نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائیگا۔اس مظاہرے میں ہندوستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔

بابری مسجد سے متعلق اہم باتیں

  • 1527ء اجودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر
  • 1853ء اجودھیا میں پہلی بار مذہبی فسادات
  • 1859ء برطانوی سامراجی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہوں کی تقسیم۔
  • 1949ء مسجد کے اندر سے رام کی مورتی کی دریافت کا دعوی۔اور حکومت کا متنازع مقام قرار دے کر مسجد کا بند کرانا۔
  • 1984ء وشو ہندو پریشد کی جانب سے بابری مسجد کے خلاف تحریک کا اعلان بی جے پی رہنما لال کرشن ایڈوانی کا اس تحریک کی قیادت۔
  • 1986ء ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو مسجد کے مقام پر پوجا کی اجازت۔مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔
  • 1989ء وشو ہندو پریشد کا مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد کا رکھنا۔
  • 1990ء وشو ہندو پریشد کے حامیوں کا مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچانا اور ہندوستانی وزیراعظم (نرسمہا راؤ) کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔
  • 1991ء ریاست اترپردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام ۔
  • 1992ء وشو ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات کا ایک لا متناہی سلسلہ، تین ہزار افراد ہلاک۔
  • 2001ء انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزم نو۔
    جنوری 2002ء وزیر اعظم واجپائی کے دفتر میں اجودھیا سیل کا قیام۔
  • فروری 2002ء بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کا شق خارج۔وشو ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کے آغاز کے لئے 15 مارچ کی تاریخ کا اعلان، اجودھیا سے کارسیواکر کے آنے والوں پر حملے کا دعویٰ۔
  • مارچ 2002ء گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کی ہلاکت۔
  • اپریل 2002ء اجودھیا کے متنازع مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔
  • جنوری 2003ء ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازع مقام کے جائزہ کا آغاز۔
  • اگست 2003ء ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔
  • ستمبر 2003ء عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر اکسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔
  • اکتوبر 2003ء مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرین آثار قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔
  • دسمبر 2003ء انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔
  • جولائی 2004ء شیو سینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لئے متنازع مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔
  • اکتوبر 2004ء لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کے عزم کا اعادہ۔
  • نومبر 2004ء الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لال کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔
  • اکتوبر 2010ء الہٰ آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی تعمیر کی گنجائش رکھی۔
  • دسمبر 2015ء بڑے پیمانے پر تعمیری پتھروں کو بابری مسجد کی زمین پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے بھیجا گیا۔
  • 9 نومبر 2019ء سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کے ذریعہ مسجد کی مکمل زمین کو رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ۔

فیصل بن استخار
متعلم صفا شریعت کالج

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے