آتا ہے یاد مجھ گزرا ہوا زمانہ

رے بھائی وہ بھی کیا دن تھے! 

بوسیدہ چٹایاں اور بوسیدہ بستے لیکر جانب مدرسہ روانہ ہوتے تھے اکثر سامان بوسیدہ ہوتے تھے لیکن دل مضبوط  

اب جوانی کے جھروکھوں سے جب ایام طفلی کی تصویر دیکھتے ہیں تو تصویر کے ساتھ تصورات کا پیش منظر کتنا حسین دکھائی دیتا ہے اور زبان پر بے ساختہ آجاتا ہے کہ وہ بھی کیا دن تھے یہاں مایہ رعنائی تھا

وہ اینٹوں کی وکٹیں وہ ٹوٹا سا بلا 

وہ گلیوں کی رونق وہ اپنا محلہ 

وہ جیبوں میں سکے مچاتے تھے شور 

امیری کے دن وہ 'وہ مٹی کا گلا 

اے بچپن بتا تو کہاں کھو گیا 

یاکہہ دے تو اب یہ بڑا ہوگیا 

بچپن کی یادیں اور باتیں اس دور ترقی کے ڈٹر جنٹ سے کھرچنے پر بھی جانے والی نہیں کہ اس اس میں جو ہمہ گیریت اور آفاقیت ہوتی ہے

اک بچپن کا زمانہ تھا 

خوشیوں کا خزانہ تھا 

چاہت چاند پانے کی تھی 

دل تتلی کا دیوانہ تھا 

تھک کر آتے تھے سکول سے 

پھر کھیلنے بھی جانا تھا 

ہر کھیل میں ساتھی تھے 

ہر رشتہ نبھانا تھا 

تو ایسا ہوتا تھا ہم سب کا بچپن

 اب تو تکنالوجی اور انٹر نیٹ نےبچوں سے ان کا بچپنا چھین لیا یا والدین نے موبائل کے بدلے بچوں کے بچپنے کو گروی رکھ دیا 

بغیر موبائل کے دور جدید کے بچوں کو نیند نہیں آتی جب کہ ہمارا معاملہ برعکس تھاکہ

کتنا آسان تھا بچپن میں سلانا ہم کو

نیند آجاتی تھی پریوں کی کہانی سن کر 

لیکن گلہ بھی نہیں کرسکتے کہ تبدیلی کارخانہ قدرت کا ناگزیر حصہ ہے وقت بدلا لوگ بدلے جینے کا ڈھنگ بدلا تو بچپن کے عادات واطوار بھی اس تبدیلی کی زد میں آگئے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر 

عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

لیت الطفولیۃ تعود


عبدالمبین محمد جمیل سلفی ایم - اے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے