"نقش بر سنگ" ایک مطالعہ

بفضل اللہ تعالیٰ مشہور صحافی درجنوں کتابوں کے مولف جناب سہیل انجم کا خاکوں کا مجموعہ "نقش برسنگ" کے مطالعہ سے فارغ ہوا. کتاب کیا ہے! معلومات کا ایک خزانہ ہے. ایک بار نگاہ پڑی تو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتی کہنے کو تو کتاب خاکوں کا مجموعہ ہے لیکن اسمیں تجربات کا نچوڑ، لفظوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، روانگی کا سیل رواں اور متعلقہ شخصیات سے الفت محبت کا ایک دریا اندرون کتاب موجزن ہے. یہی سچے خاکہ نگار کی شناخت ہوتی ہے کہ وہ جس شخص کی خاکہ نگاری کرے اسکے متعلق وافر معلومات اسکے پاس موجود ہوں اورمتعلقہ شخصیات سے متاثر ہو کیونکہ خاکہ نگار کا متعلقہ شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے مکمل واقفیت اور قربت بھی لازمی ہے، پہلی ملاقات یا چند ملاقاتوں کے تاثرات کی بنیاد پر کسی کا خاکہ لکھ دینے سے خاکہ نگاری کا حق ادا نہیں ہوتا.

اس تناظر میں جب ہم سہیل انجم کے خاکوں کا مجموعہ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس اصول پر یہ کتاب مکمل اترتی ہے کیونکہ اس میں جن شخصیات کے متعلق خامہ فرسائی کی گئی ہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن سے کم نہیں ہر ایک اپنے میدان کا شہسوار اور بطل جلیل ہے اور ہر ایک کی ایک سچی و حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے جو اصول خاکہ نگاری کا جزء لا ینفک ہے

خاکہ میں زیر بحث شخصیت کو یوں پیش کیا جانا چاہیے کہ اس کے اوصاف و کمالات کچھ اسطرح سامنے آجائیں کہ پڑھنے والے پر وہ شخصیت پوری طرح روشن ہوجائے. 

شخصیت کے تاریک پہلوؤں کو بھی سامنے لایا جاسکتا ہے مگر اس انداز میں کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے نفرت کے بجائے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو، کسی کی شخصیت کومسخ کرکے پیش کرنا یا اس کے برعکس کسی کو فرشتہ بنا کر پیش کرنا اصول خاکہ نگاری کے سراسر منافی ہے. 


جناب سہیل انجم نے مذکورہ اصول خاکہ نگاری کی مکمل پاسداری کی ہے اور قلم کی پاکیزگی اور تقویٰ کا حددرجہ خیال رکھا ہے.

ویسے تو زیر تبصرہ کتاب "نقش برسنگ" تقریباً 26خاکوں پر مشتمل ہے جس میں سے 13 باحیات لوگوں کو خراج تحسین اور 13 مرحومین کو خراج عقیدت پر مشتمل ہے


اسی طرح ایک دوسرا خاکوں کا مجموعہ "نقش بر آب" بھی لوگوں سے داد تحسین حاصل کر چکا ہے جس میں سہیل انجم صاحب نے اپنے والد(ابو الماثر حامد الانصاری عبد الحمید عرف انجم) دادا اور بڑے بھائی سمیت کئ لوگوں پر زبردست مضمون لکھا ہے جو پڑھنے سے متعلق ہے

سہیل انجم ایک نامور محقق صحافی ہیں جنہوں نے متعدد اخبارات میں اپنی جانفشانی اور محنت کو بروئے کار لاکر قومی سطح پر ایک اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے، 

صحافت کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے درجنوں کتابوں کا تحفہ اہل دانش وبینش کو عطا کیا.

سہیل انجم کا نام تو بہت سالوں سے سنتا چلا آیا ہوں"یہ بات الگ ہے اور اس کا افسوس بھی کہ ہم علاقہ ہونے کے باوجود ابھی ملاقات نہ ہوسکی "لیکن دوران طالب علمی جامعہ سلفیہ بنارس میں استاد محترم اسعد اعظمی کی زبان سے متعدد بار نام سن کر احساس ہوا کہ یہ کوئی عظیم شخصیت ہے کیونکہ اسعد اعظمی صاحب کے حوالے سے نام کا آنا بجائے خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے

ہوا یوں کہ اسعد اعظمی صاحب ہم لوگوں کو موضوع صحافت پر درس دیتے تھے اور یہ بات 2012/13کی ہے اسی درمیان سہیل انجم کی ایک نہایت معتبر کتاب "میڈیا روپ اور بہروپ" منظر عام پر آئی جس کے مطالعہ پر ہم سب کو ابھارتے تھے

بہرحال سہیل انجم کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے پروفیسر ابن کنول "اب وفات پاچکے ہیں" سابق صدر شعبہ دہلی یونیورسٹی کے لفظوں میں کہیں تو "وہ محض صحافی نہیں بلکہ باضابطہ ادیب بھی ہیں سہیل انجم کو زبان بیان پر بے پناہ قدرت حاصل ہے انہوں نے اپنی تحریروں سے اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے"


ایڈیٹر شکیل رشید روزنامہ ممبئی اردو نیوز انکے اسلوب نگارش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں "نقش برآب" (یہ ایک دوسرا خاکوں کا مجموعہ ہے سطور بالا میں جس کا مختصر تعارف پیش کیا گیا) لوگوں کو چونکا گئ خصوصاً ان ادیبوں کو جو طے کر بیٹھے ہیں کہ ان سے بہتر نہ کوئی لکھنے والا ہے اور نہ ہوگا وہ جو سواۓ اپنی تحریروں کے دوسروں کی تحریروں پرنظر تک نہیں ڈالتے اور صحافیوں کی تحریریں تو انکی نظر میں خبروں کے سوا اور کچھ نہیں"


خاکوں کا یہ مجموعہ ہر قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے

راقم کوتمام خاکوں میں درج ذیل خاکے سب سے زیادہ دلچسپ لگے


1 م - أفضل صحافت - سیاست - سفارت

2 مودود صدیقی - ایک انوکھی شخصیت


سہیل انجم نےخاکوں کی شکل میں جو خراج عقیدت مرحومین کو پیش کیا ہے وہ الفاظ کی ندرت، بیان کی شائستگی، لب و لہجہ کی پاکیزگی کا ایسا حسین پیرھن ہے جو متعلقہ شخصیتوں کی صفات کی چمک میں مزید نکھار اور حسن پیدا کرکے انہیں زندہ جاوید بنادیتا ہے۔


عبدالمبین محمد جمیل سلفی ایم - اے

(مضمون دو سال قدیم ہے 

آج فرصت ملنے پر ٹائپ کرکے آپ قارئین کی خدمت میں پیش کیا)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے