مداح رسول ﷺ حضرت حسان بن ثابتؓ

قبل از اسلام اور صدر اسلام کے مواصلاتی ذرائع

ذرائع ابلاغ یا میڈیا کسی بھی دور میں ہو ایک بہت ہی مضبوط ہتھیار کی سی حیثیت رکھتا ہے، کوئی بھی شخص جو ان وسائل پر دسترس رکھتا ہے تو وہ بہت کچھ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لوگوں کے خیالات اور ان کے سوچنے کا معیار بدل سکتا ہے، آپ ﷺ کے دور میں ابلاغ و مواصلت کا ایک سب سے بڑا ذریعہ تھا شاعری، اور شاعری میں بھی دو اصناف کا بہت زیادہ رواج تھا ان میں سے ایک صنف کا نام ہے مدح و ہجا اور دوسری صنف ہے فخر ومباہات، تعریف او ر ہجو کا لوگوں کی زندگیوں پر بہت ہی گہرا اثر ہوا کرتا تھا، اسی وجہ سے آپ نے صحابہ سے فرمایا تھا:

اھجو قریشا فإنہ أشد علیہم من رشق النبل، مسلم

قریش کی ہجو بیان کرو کیوں کہ یہ ان پر تیر مارنے سے زیادہشدید و سخت ہے۔

مدینہ میں کئی بڑے بڑے شعراء تھے جن میں کعب بن مالک ، عبد اللہ بن رواحہ ، اور حسان بن ثبت خاصے مشہور ہوئے۔

شاعرِ رسول حسان بن ثابت ابتدائی احوال

آج ہم بات کریں گے ایک ایسے صحابی رسول کی جوکہ شاعر رسول کی حیثیت سے مشہور ہیں، جن کا نام ہے حضرت حسان بن ثابتؓ، جب ہم بات کریں گے حضرت حسان کی تو ہمیں بات کرنی ہوگی ایک مکمل صدی کی بلکہ اس سے کچھ زیادہ کی کیوں کہ یہ ہیں حسان بن ثابت ، جنہوں نے ۱۲۰ سال لمبی عمر پائی تھی ،اپنی زندگی کے ان ایام میں انہوں نےعربی زبان و ادب کو بہت کچھ دیا، جس کی وجہ سے محققین اور ناقدین کے لئے نقد و تحقیق کے کئی نئے باب کھل گئے، ۶۰ سال اسلام سے قبل اور ۶۰ سال اسلام میں داخل ہونے کے بعد، اسلام میں داخل ہونے کے بعد ۶۰ سالوں تک اسلام اور نبی اسلام کا دفاع کرتے رہے۔

دورِ جاہلیت میں یثرب (مدینہ) کے حالات

زمانہء جاہلیت میں مدینہ اوس اور خزرج نام کے دو مشہور قبیلوں کی آپسی جنگوں کا مرکز بنا ہوا تھا دونوں میں عرصہ دراز سے جنگیں ہوتی چلی آرہی تھی، دونوں قبیلوں میں بڑے بڑے دو شاعر تھے جن میں قیس بن خطیم قبیلہ اوس کے شاعر اپنے اسی قبیلے کی مدح سرائی و فخر ومباہات ان کا مشغلہ رہا جبکہ اورحسان قبیلۂ خزرج کے شاعر تھے خزرج کی مدح سرائی کرتے رہے، اوس اور خزرج کے درمیان ایک بہت لمبی جنگ چھڑی ہوئی تھی جسے جنگ بعاث کہا جاتاہے اسی جنگ زور پکڑنے میں قیس اور حسان کا بہت اہم رول رہا ، بالآخر حسان نے اسلام قبول کر لیا اسلام قبول کرنے کے بعد حسان اسلامی شاعر بن گئے۔

وہی حسان ہیں جو غسانی امراء کے دربار میں جاتے تھے اور ان کی تعریف اور توصیف سے روزی حاصل کرتے تھے، لیکن وہی حسان جب مسلمان ہوئے تو شاعر رسول بن گئے، اور رسول کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا جواب دے کر رسول اللہ اور دین اللہ کا دفاع کرنے لگے۔

حسان کی شاعری

حسان کی شاعری پر غور کریں گے تو ان کی شاعری کے دو مراحل نظر آئیں گے، دونوں مراحل ان کی شاعری پر خاصے اثر انداز بھی رہے ہیں۔

ایک ہے جاہلی شاعری اور دوسرا مرحلہ کے اسلام کے بعد کا

۔معاشرتی اعتبار سے حسان کو دیکھیں تو حسان ایک شہری شاعر تھے شہر کی آب و ہوا میں پلے بڑھے ، آس پاس کا موحول بھی بہت ہی مہذب تھا ، مہذب اس معنی میں کہ اس وقت مدینہ دوسرے علاقوں کے بالمقابل کافی متمدن علاقہ تھا ، ہرے بھرے باغات، محلات ، ثشمے، پھلوں اور غلوں کی بہتاتوغیرہ وغیرہ کافی کچھ تھا، سبھی ہم عصر دیہاتی شاعروں سے الگ تھی، حسان کی زندگی، مختلف درباروں میں ان کا آنا جانا لگا رہا ، بالخصوص ملک شام میں غسانیوں کے ہم نشین رہے، دربار میں جاتے وقت راستے میں دہاتیوں کے ساتھ کچھ وقت ملنا جلنا ضرور ہوتا تھا، ان تمام کے باوجود حسان کی شاعری کا منہج ان کے اپنے دیہاتی و بدوی شاعروں یا ان سے پہلے کی جاہلی شاعری سے کچھ بھی مختلف نہیں ، حسان کا منھج شاعری بھی بالکل انہیں کے شاعری کے مثل ہے یعنی مدح سرائی اور ہجو گوئی، ایک بہت ہی معروف شاعر نابغہ ذبیانی کے ساتھ ان کا ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے، نابغہ نعمان بن منذر کا درباری شاعر تھا ،نابغہ کے علاوہ اور بھی کئی درباری شاعر تھے جن میں القم الفحل قابل ذکر ہے ، نابغہ کی غیر موجودگی میں نعمان کے حسان کی شاعری کو بغور سنا نعمان نے جب حسان کی شاعری سنی تو بہت پسند آئی اور انہیں نابغہ ذبیانی کا ہم رتبہ بنا دیا، اور نابغہ واپس آیا تو اے اچھا نہ لگا اور واپس لوٹ گیا۔

حسان کی قبل از اسلام شاعری کے نمونے

لله       در    عصابة      نادمتهم
يوما   بجلّق في    الزمان     الأول

يمشون في الحلل المضاعف  نسجها
مشي  الجمال    الى الجمال   البّزل

الضاربون الكيش يبرق بيضه
ضربا يطيح له بنان   المفصل

والخالطون  غنيهم    بفقيرهم
والمنعمون على الضعيف المرمل

أولاد جفنة حول  قبر أبيهم
قبر ابن مارية الكريم المفضل

يغشون حتى  ما تهر كلابهم
لا يسألون عن السواد المقبل

بيض الوجوه كريمة أحسابهم
شم الأنوف من الطراز الأول

ولقد شربت الخمر فی حانوتھا
صھباء صافیۃ کطعم الفلفل

فلبست ازمانا طوالا فیھم
ثم ذکرت کاننی  لم افعل

بزجاجۃ  رقصت  بما  فی قعرھا
رقص القلوص براکب مستعجل

شاعری کے اس نمونے میں مدح سرائی بھی ہے خمریات بھی اور فخر ومباہات بھی۔

یسقون من ورد البریص علیھم
بردا  یصفق  بالرحیق  السلسل

اس شعر میں غساسنہ کے دیار کا نقشہ کھینچا ہے، دمشق کے جنوبی حصے سے ابتداء کی، بریص یہ موجودہ جو اس وقت کسوۃ شہر میں تبدیل ہو چکا ہے، جوکہ سیریا کے جنوبی حصے سے ہوتے ہوئے اردن کے شمال تک فلسطین اور لبنان کے ایک چھوٹے سے حصے سے ہو کر گزرتا ہے، یہتما علاقے ھسان کی شاعری میں نظر آتے ہیں جو بھی ان علاقوں کے اصل کی معلومات چاہتا ہے تو اسے حسان کے اشعار کا مطالعہ کرنا پڑے گا، ان اشعار میں تفصیلی جغرافیائی معلومات ملیں گی، یہ حسان کی شاعری کا بہت اہم اور ایک بڑا پہلو ہے۔

آپ نے یثرب کے شہری ماحول میں پرورش پائی۔ وہاں شعر و شاعری کے تذکرے عام تھے۔ آپ کا ذوق سلیم شاعری کے مطابق تھا۔ شعر کہنا شروع کیا۔ اپنے قبیلے کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے شعر کہتےبہت جلد نامور ہو کر اشعر اہل المدر کہلائے۔ حضری شعرا میں تو کوئی ان کا مد مقابل نہ تھا۔ بدوی شعرا سے بھی تعلق رہتا اورشعری مبازرت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ ناقدین آپ کی دور جاہلیت کی شاعری کو بہترین اور قابل استناد جانتے ہیں۔ آل جفنہ کی مدح میں آپ کے قصائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان قصائد کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ مالی اعانت یا انعام اکرام کی بجائے خلوص و محبت کے رنگ میں ڈھلے ہوئے تھے۔

محققین کا نظریہ

حسان بن ثابت زمانۂ جاہلیت میں بھی ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے معروف تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے، ۶۰ سال کی عمر پختگی کی عمر ہوا کرتی ہے ، اس عمر میں انسان کی ایک اپنی سوچ اور اپنی الگ رائے ہوا کرتی ہے، حسان بن ثابت اس عمر میں ایک پختہ انشاپرداز اور شاعر بن چکے تھے ، بلکل آزادانہ طور پر شاعری کے سفر میں رواں دواں تھے، غزلیات خمریات مدحیات اور ہجویات الغرض سبھی عناصر بداجۂ اتم موجود تھے، حسان شاعری کا نہج ان کی رگ و پے میں پیوست ہوچکا تھا، لیکن جیسے ہی اسلام میں داخل ہوئے اور ان کی زندی کا دوسرا ۶۰ سالہ دور شروع ہوا ، شاعری کا نہج ہی بدل گیا ، ان کی مدح گوئی کا ایک الگ طرز یعنی پہلے سے افضل مدح میں بدل گئی، ان کی ہجو گوئی ایک الک ہجو گوئی میں بدل گئی، غزلیاتی شاعری ترک کردی، خمریات ان کی شاعری سے نکل گئی، الغرض ایک آزاد اور ہمہ جہتی شاعر ایک نئی ریاست کا ملازم بن گیا، ایک بلند درجے کا ملازم، اور لسان الدولہ یعنی ایک ریاست کا ترجمان کہلانے لگا، اور اس کا دفاع کرنے لگا۔

حسان کی خمریاتی و غزلیاتی شاعری یکسر بدل گئی ، ہجو گوئی پہلے سے زبردست اور مضبوط ہوگئی کیوں کہ اب یہ دفاعی مرحلے میں داخل ہوچکی تھی، غور کیجئے اس دور میں تقریبا دو سو شعرا نبی ﷺ کے بالمقال کھڑے تھے اور آپ کوتکلیف پہچانے کے لئے کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جسے وہ لوگ اختیار نہ کئے ہوں، ہیود اور منافقین کی سازشیں الگ، لیکن ان سب کا مقابلہ کتنے صحابہ نے کیا ؟ گنتی کے تین چار اور بس! کعب بن مالک عبد اللہ بن رواحہ اور حسان بن ثابت، کعب بن مالک شعر اچھا کہہ لیتے تھے لیکن ہجو گوئی پر دسترس نہیں تھی، عبد اللہ بن رواحہ شاعر ایمانیات تھے، حسان کے ہم پلہ اس لئے نہیں تھے کہ انہیں صرف ایک صنف شاعری پر ہی دسترس حاصل تھی، مخضرم شعراء میں صرف حسان ہی ایسے شاعر تھے جنہیں قبولیت عام و دوام حاصل رہا، اورباقی سبھی دھیرے دھیرے بجھ سے گئے اور شاعری میں حسان کے مرتبے تک نہ پہنچ سکے، لبید بن ربیعہ ، خنساء ، لیکن حسان سب سے سربلند رہے۔

ایک مرتبہ قریش نے نبی اور اسلام پر لفاظیاں کیں آپ کو بہت دکھ ہوا اور ان لفاظیوں کاجواب دینے کے لئے عبد اللہ بن رواحہ آگے آئے اور قریش کا جواب دیا لیکن آپ کو تسلی بخش جواب نہ لگا،پھر کعب بن مالک کو متعین کیا کعب نے قریش کا جواب دینے کی کوشش کی اور ان کی ہجو کی لیکن آپ مطمئن نہ ہوئے اس کے بعد آپ نے حسان بن ثابت کو بلوایا اور انہیں قریش کے لفاظیوں کا جواب دینے کی درخواست فرمائی۔

حسان بن ثابت نے کہا:

ولذی بعثک بالحق لافرینھم بلسانی فري الادیم

قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی زبان سے ان کی خصلتوں کا ایسا پقسٹ مارٹم کروں گا جیسے کھال کا کیا جاتا ہے۔

آپ حسان کی شعری ملکہ سے واقف تھے ، آب سمجھتے تھے کہ حسان یہ کام بحسن و خوبی کر سکتے ہیں، لیکن پھر بھی آپ نے ان سے فرمایا؛

کیف تھجوھم وانا منھم، اذھب الی ابی بکر یعلمک مثالب الناس، وفی روایۃ معائبھم

حسان تم کیسے ان کی ہجو کروگے جبکہ میں بھی انہیں کا ایک حصہ ہوں، ابوبکرؓ کے پاس جاؤ وہ آپ کو قریش کا حسب نسب اور ان کی عادتیں تمہیں سکھادیں گے۔

ایک دوسری رایت میں ہے:

لاتعجل فإن أبابکر أعلم قريش بانسابھم وأن لی فیھم نسبا حتى يلخص لک نسبی

حسان تم جلد بازی نہ کرو ابوبکر قریش کے حسب و نسب کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں ، میرا قریش سے نسبی رشتہ ہے، ابوبکر تمہیں میرا بھی نسبنامہ سکھا دیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ جب قریش نے حسان کے جوابی اشعار کو سنا تو کہنے لگے:

لقد قال ابوبکر الشعر بعدنا

ہمارا جواب تو صرف ابوبکر ہی دے سکتے ہیں

انہوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حسب نسب ان تمام اشیاء کی تفصیلات وباریکیوں کا علم حسان کو نہیں ہے ، ضرور کوئی ہے جو انہیں یہ تمام چیزیں سکھاتا ہے اور وہ ابوبکر ہی ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ حسان ابوبکر کے پاس گئے اور ان سے قریش کا نسب سیکھا، پھر آب کے پاس وارد ہوئے، اور عرض کیا:

یارسول اللہ ان ابابکر قد لخص لي نسبك

اے اللہ کے رسول ابوبکرؓ نے ہمیں آپ نسب نامہ مکمل سکھادیا ہے، یعنی آپ کا نسب بھی ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے

والذي بعثك بالحق لاسلنک منھم کما تسل الشعرۃ من العجین

قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم آپ کو ایسے ہیں محفوظ نکال لیں کے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال کو نکال لیا جاتا ہے۔

یعنی قریش کی ہجو ایسے کریں گے کہ آپ محفوظ رہیں گے ، اور حسان نے ایسا کر کے دکھا بھی دیا ، اسے کہتے ہیں الاعداد قبل العمل پہلے اپنے آب کو مکمل طور پر تیار کیا اس کے بعد اسلام کے لئے اپنی اشعار کے ذریعے عطیم خدمات انجام دیں
مثال کے طور پر آپ حسان کا وہ شعر دیکھیں جس میں وہ ابوسفیان بن حارث کی جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ہجو کر رہے ہیں اور قریش کو جو کہ نبی ﷺ کا قبیلہ ہے اسے ہجو سے بچا نکالتے ہیں:

لست  من  المعثر  الاكرمي
ن لا  عبد ثمس و لا نوفل

وليس  ابوك   بساقي    الحجي
ج فاقعد على الحسب الأرذل

ولكن هجين  منوط  بهم
كما نوِّطت  حلقة  المحمل

یعنی قریش کے درمیان تمہارا مرتبہ اور مقام کیا؟ بس تلوار کے اس حلقے کے برابر ہے جس پر تلوار لٹکائی جاتی ہے۔

اسی ضمن میں ایک اور قصیدہ ملاحظہ کریں جس میں حسان نے ابوجہل کی ہجو کی ہے۔

قد حان قول قصیدۃ   مشہورۃ
شنعاءَ  اُرصِدھا  لقوم  رُضظَع

يغلِ بها صدرِي واحسن حوكها
وإخالها   ستقال    إن  لم تقطع

ذهبت  قريش  بالعلاء  وأنتمُ
تمشون مشي المومسات الخُرّٰع

یعنی قریش تو بلندی میں کہاں تک پہونچ گئے اور تم؟؟؟

اسی بنیاد پر بعض محققین کا کہنا ہے کہ حسان بن ثابت قریش کی ہجو گوئی میں بالکل کامیاب و بامراد تھے، اور ساتھ ہی انہیں جبریل علیہ السلام کی تائید بھی حاصل رہی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔

اھجھم یا حسان فان معک روح القدس القدس

اےحسان! ان کی ہجو کرو جبریل آپ کے ساتھ میں۔

اسی طرح حسان بن ثابت کفار کو عار و شرم دلانے کے لئے کفر وایمان ، جزا و سزا، اور وعد و وعید کے مسايل کا تذکرہ نہیں کرتے تھے کیوں کہ وہ لوگ نہ تو ان چیزوں کو مانتے تھے اور نہ ہی ان پر ایمان ہی رکھتے تھے، حسان بہت ذہین انسان تھے وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے، اس کے برعکس وہ ان کی خامیوں ، خصلتوں اور عادتوں کو ذکر کر کے انہیں عار و شرم دلاتے تھے، اور رہے دوسرے شاعر رسول عبد اللہ بن رواحہ تو آپ انہیں ان کے کفر کو بیان کر کے انہیں عار و شرم دلاتے تھے۔

اسی لئے ناقدین نے بہت زبردست بات کہی ہے

كان شعر حسان أشد على المشركِن قبل أن يسلموا لأنه تعيرهم في الخصال وفلما أسلموا صار شعر عبد الله بن رواحة أشد عليهم، لأنه تعيرهم بكفرهم

حسان کے اشعار مشرکین کے لئے اسلام لانے سے قبل بہت سخلت اور تکلیف دہ ہوا کرتے تھے، کیوں کہ وہ ان کی عادتوں اور خصلتوں کو ذکر کرکے عار دلاتے تھے، اسلام لانے کے بعد تو عبد اللہ بن رواحہ کے اشعار بہت سخت لگے کیوں کہ وہ انہیں ان کے کفر پر عار دلاتے تھے۔

مثال کے طور پر حسان کے وہ اشعار دیکھیں جو فتح مکہ کے موقعہ پر کہے گئے تھے، قدیم عرب شعرا کے طرز پر انہوں نے اپنے اس قصیدے کو تشبیب سے شروع کیا ہے:

عفَت ذات الأ صابعِ فالجِواء
إلى    عذراءَ   منزلها   خلاء

اصابع اور جواء کےت مقام پرعذراء کے گھر کے نشانات مٹ چکے ہیں وہاں کچھ بھی نہ رہا۔

ديار من بني الحسحاس قفر
تُعَفّيها    الروامسُ   والسماء

بنو حسحاس (بنو نجار کے پرکھوں) کے دیار چٹیل میدان میں تبدیل ہو چکے ہیں قبر کی مٹی اور گردشِ ایام نے سب کچھ مٹادیا۔

وكانت  لايزال  بها  أنِيسٌ
خلالَ مروجها نِعَم وَ شاهُ

ان مقامات پر کسی انسان یا شناساں کا نام و نشان نہیں وہاں کے علاقے میں سب صرف انٹوں اور بکریوں کا راج ہے۔

فدَع هذا، ولكن من بطيف
يُؤرّقني  إذا   ذهب   العشاء

خیر ہی سب چھوڑو، لیکن مقام طیف پر جو انسان ہے وہ راتوں کو مجھے بیدار رکھتا ہے

فإما   تعرض   عنا  اعتمرنا
وكان الفتح انكشف الغطاء

یا تو تم ہمارا راستہ چھوڑ دو تاکہ ہم عمرہ سے فارغ ہولیں، فتح مکہ تو تمام پردوں کو کھول ہی دے گا

وإلا فاصبروا لجلاد يومٍ
يُعِز الله   فيه من   يشاء

یا تم صبر اور انتظار کرو اس دن دن کا جس دن کی لڑائی ہوگی، اس دن اللہ جسے چاہے گا عزت سے نوازے گا۔

وقال اللہ قد ارسلت عبدا
يقول   الحق إن نفع البلاء

اللہ نے کہا کہ ہم نے ایک بندے کو بھیجا جو آزمائش  وں کے باوجود حق بات کہتا ہے۔

شهدتُ به فقوموا صدّقوه
فقلتم ما نقول  ولا  نشاء

میں نے تو اس رسول کی گواہی دی، تم بھی کھڑے ہوجاو اور اس کی تصدیق کرو، لیکن تم نے تو اس کا اقرار و تصدیق کرنے سے انکار کردیا

وقال الله قد سيّرت جندا
هم الأنصار عُرضتها اللقاء

اللہ نے کہا ہے کہ ہم نے ایک لشکر کو بھیج دیا ہے اور وہ لشکر انصار ہیں اس لشکر کا مقصد صرف اور صرف جنگ ہے۔

فنحكم  بالقوافي  من   هجانا
ونضرب حِن تختلط الدماء

جو ہماری ہجو کرتا ہے ہم اس کا جواب شاعری سے دیتے ہیں لیکن جن لڑنے کا مقام آتا ہے تو تو مارتے بھی ہیں۔

ألا أبلغ أبا  سفيان عني
فأنت مُجَوَّف نَخب هواء

ہاں! ابوسفیان کو میری جانب سے خبر پہنچا دو، تو تو صرف ڈھول جیسے بجتا ہے ، بزدل ہے

وأن سيوفنا تركَتك عبدا
وعبد الدار سادتُها الإماء

ہماری تلواروں نے تجھے غلام بنا کر چھوڑا، اور عبدالدار کی سردار ایک لونڈی ہو گئی ہے،

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ  الْجَزَاءُ

تو نے محمدﷺ کی ہجو کی ہے؟ ہم نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے، اللہ کے پاس اس کا اجر ملے گا

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا  حَنِيفًا
رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ

تونے محمدا ﷺ کی ہجو کی ہے؟ جوکی نیک سیرت ، پاکباز ہے اللہ کا رسول ہے جس کی عادت اور خصلت میں رفاداری ہے،

أ تهجوه ولست له بكفء
فشركما    لخِركما     الفداء

کیا تم ایسے عظیم شخص کی ہجو کر رہے ہو؟ تم تو اس کے برابر نہیں ہو، تم میں سے شریر کا شر تمہارے خیر والے کے خیر پر فدا ہے،

وأحسن منك لم تر قط عيني
وأجمل منك  لم  تلد   النساء

اے رسول! تم سے زیادہ خوبصورت کو کبھی میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور تم سے زیادہ خوبصورت کو کبھی کسی عورت نے جنا ہی نہیں

خلقت مبرءا من كل عيب
كأنك   قد خلقت كما تشاء

آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، گویا آپ بالکل اپنی خواہش کے مطابق خلق ہوئے ہیں

وَقَالَ اللَّهُ : قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا
يَقُولُ  الْحَقَّ  لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ

اور اللہ نے کہا کہ ہم نے ایک رسول بھیجا جو بر ملا حق بات کہتا ہے۔

وَقَالَ اللَّهُ : قَدْ سيرْتُ جُنْدًا
هُمُ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا  اللِّقَاءُ

اور اللہ نے کہا کہ ہم نے ایک لشکر روانہ کیا ، اور وہ لشکر انصار ہیں جن کا مقصد جنگ ہے۔

لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ
سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ

ہمارا ہر روز قبیلہ معد والوں سے سب وستم ہجو اور لڑائی میں مقابلہ ہوتا ہے

وَ جِبْرِيلٌ  رَسُولُ  اللَّهِ    فِينَا
وَرُوحُ الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ

ہماے درمیان تو جبریل اور اللہ کے رسول ہیں، اور روح القدس تو وہ ہیں جن کی کوئی برابری نہیں کر سکتا۔

لساني صارم لاعيب  فيه
وبحري  لاتكدره  الذِلاء

میری زبان ایسی تیز تلوار ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں ہے، اور میری شاعری ایسی ہے کہ اسے بار بار کسی کے رد کرنے سے کمزور نہیں ہوتی۔

ان بحور ميں غور کریں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حسان بن ثابت چیلینج کر رہے ہیں اور ابو سفیان کو دعوتِ مبازرت دے کر للکار رہے ہیں ، اور انسانی عقل کو بحیشیت ایک حکم کےاس امر پر مامور کر رہے ہیں کہ وہی ابوسفیان اور رسول اللہ کے مابین فیصلہ کرے، کہتے ہیں فشرکما لخیرکما الفداء یعنی تم میں جو شر پسند ہے وہ اپنے ہی اندر کے صاحبِ خیر پر فدا کیوں نہیں ہوجاتا، کس کے اندر شر ہے اور کس کے یہاں خیر، جانتے ہوئے بھی اس کی تحدید نہیں کی بلکہ عقل پر چھوڑ دیا کہ عقل خود فیصلہ کر دے گی، دوسرے شعر میں دیکھیں کہتے ہیں یعز اللہ فیہ من یشاء حسان کو یقین ہے کہ عزت اللہ کے رسول کے لئے ہے لیکن پھر بھی مفہوم کو عام رکھا ، لسان حال سے سوال کر ہے ہیں ابوسفیان سے کہ اے ابوسفیان کیا تم مجھ سے اس بات پر متفق ہو کہ آپ دونوں میں جسب کے پاس شر ہے وہ ا ٓپ دونوں میں جو خیر والا ہے اس کے خیر پر فدا ہیں ، کیا تم میری اس بات سے اتفاق رکھتے ہو کہ اللہ آج جسے چاہے گا عزت سے نوازے گا؟ کیا تم میری اس بات سے اتفاق رکھتے ہو ابو سفیان تم ان تمام چیزوں کے اہل نہیں ہو، پھر آکرمیں فیصلہ کردیا کہ میری زبا فیصل ہے آج کے دن کہ خیر کس کے پاس ہے شر کس کے پاس ہے عزت کس کے لئے ہے ذلت کس کے لئے ہے، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کچھ بھی فرق پڑنے والا نہیں۔

قریش کے شعراء جن میں بالخصوص ابو سفیان بہت ہی زبردست شاعر تھے جن کے سامنے کوئی ٹہر نہیں سکتا تھا حسان ہی ایسے منفرد شاعر تھے جو ابوسفیان اور اس کے علاوہ عبد اللہ بن زبارہ اور امیہ بن ابی صلت کے سامنے ڈتے ہوئے تھے اور واقعۃ اس کی صلاحیت بھی رکھتے تھے کہ ان سے مقابلہ کر سکیں، ابتداء میں تو آپﷺ نے اس مواصلاتی جنگ کا اعلان کرنے میں تاخیر کی اور پہل نہ کی کیوں کہ آپﷺ ہجو گوئی میں پہل کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے اس لئے اسے موخر رکھا ، لیکن جب معاملہ حد سے تجاوز کرگیا تو آپ کو حضرت حسان کی ضرورت محسوس کی لہذا آپ نے فرمایا:

ألم يأن الأوان لهذا الرجل الضارب بذنبه

كیا اس شخص کے لئے ابھی وقت نہیں آیا جو اپنی زبان سے ضرب لگاتا ہے کہ کچھ کہے؟
حضرت حسان بنی ﷺ کے پاس آئے اور اپنی لمبی زبان باہر نکالی جو ان کی ناک کے نوکیلے حصے کو چھو رہی تھی اور ایک قول کے مطابق ان کے سینے تک پہنچ رہی تھی، پھر انہوں نے آپ ﷺ سے فرمایا:
والله یِا رسول الله ! لو وضعت هذا اللسان على صخر إلا فلك أو على شعر إلا حلق، واللہ لافرِينهم فري الأديم
وہ جوانمرد اس فیصلہ کن معرکے کے لئے پورے طور پر مستعد تھا، ایک ایسے جوانمرد تھے نہیں نبی ﷺ کا مکمل سپورٹ حاصل تھا، یہی وجہ ہے لہ آپ ﷺ نے ان سے کہا تھا

أُجهم و معك روح القدس

القدس کا مطلب ہے طاہر پاک وصاف، مطلب یہ ہوا کہ

اللہ سبحانہ وتعالی سیطھرک

اللہ تعالی آپ کو پاک وصاف رکھے گا۔

ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسان بن ثابت کے لیے مسجد میں منبر رکھایا کرتے تھے، تاکہ اس پر کھڑے ہو کر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مفاخرت کریں۔ یعنی حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں یا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت کریں، یعنی کفار کے الزامات کا جواب دیں۔ یہ شک راوی کا ہے اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی فرماتے تھے کہ اهذهم وذبِل معك حق تعاروح القدس سے حسان کی امداد فرماتے ہیں۔ جب تک کہ وہ دین کی امداد کرتے ہیں۔
حسان بن ثابت ایسے شخص ہیں جن پر کئی تہمتیں بھی لگی ہیں ، کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں ہیں کہ حسان جبان یعنی بزدل تھے، غور کیجئے ایک ایسا شاعر جو قریش کے بڑے بڑے شاعروں کے دانت کٹھے کودیتا ہو، چوٹی کے شاعروں کی نیدیں حرام کر دیتا ہو اس کے اوپر بردلی کا الزام؟ چہ معنی دارد؟

اس الزام کے مصداق میںایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ غزوہ خندق میں حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں کے ساتھ قلعہ میں تھے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عبدالمطلب بھی اسی قلعہ میں تھیں۔ ایک یہودی نے قلعہ کے گرد چکر لگایا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ اگر یہودیوں کو اطلاع ہوگئی تو بڑی مشکل پیش آئے گی کیونکہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد میں مشغول تھے۔ انہوں نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: اس کو مارو ورنہ یہود کو جاکر خبر کردے گا۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: آپ کو معلوم ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ایک آدمی جس کی عمر ۶۰ سے اوپر ہو اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایسا عذر ہو جس سے تلوار نہ سنبھل سکے تو وہ کیسے وار کر سکتا ہے؟

جی ہاں واقعہ افک میں چونکہ حسان کا رجحان ان لوگوں کی طرف ہوگیا تھا جو حضرت عائشہ پر بہتان لگا رہے تھے جس کی وجہ سے صفوان نے حسان پر تلوار سے وار کیا تھا جس کے سبب داہنے ہاتھ کی ایک رگ کٹ گئی تھی جس کی وجہ سے تلوار نہیں اٹھا سکتے تھے، اس لئے ان سے یہ کام نہ ہو سکا تھا ، اس واقعہ کو بنیاد بنا کر حضرت حسان پر بزدلی کا الزام لگانا بے بنیاد اور بے محل ہے۔

نبی ﷺکے بعد آپ کے جانشین ھضرت ابوبکر و عمر کے نزدیک بھی حسان کا ایک مرتبہ تھا، انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیتے رہے ، خصوصا عمر بن خطابؓ، عمر نے اپنے دور میں تو انہیں قاضی شعر بنا یا تھا، جب حطیہ نے زبادبن بدر کی ہجو کی تو وہ عمر کے پاس معاملہ لے کر آئے، عمرؓ نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا کیونکہ شعر و شاعری سے انہیں واقفیت نہ تھی، لہذا انہوں نے حسان سے اس سلسلے میں مشورہ لیا تھا، اور انہیں اس معاملے کا قاضی بنایا، ایک دوسرے واقعے میں نجاشی حارثی نے کچھ افراد کی ہجو کردی تھی تو وہ لوگ عمرؓ کے پاس شکایت لے کر آئے، تو ان کے لئے بھی حسان کو ہی حکم اور قاضی بنایا، نیز حسان نعمان بن منذر کے دربار میں نابغہ جیسے شاعر پر پہلے ہی فوقیت لے چکے تھے۔

حسان بن ثابت شاعر رسول ، مداح رسول، اور رسول کے دفاع کرنے والے اور دین اسلام کا دفاع کرنے والے تو تھے ساتھ ہی اور بہت کچھ تھے، حسان ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری کے بہت سارے مقاصد تھے، اسلام لانے کے بعد وہ مقاصد مزید مستحکم اور مبارک ہوگئے، مرثیہ گوئی، بھی ان کا خاص فن شاعری رہا، اس کے علاوہ سرزنش بھی اپنی شاعری کے وسیلے سے کرتے تھے، اسی طرح فخر و ناز برداری بھی اپنی شاعری کی مدد سے خوب کر لیتے تھے۔

غزوۂ حنین میں حسان نے آپ پر فخر و ناز کرتے ہوئے اشعار کہے تھے جن غنایم کے تقیم کے مرحلے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی کہ آپ ﷺ اپنے لوگوں کو زیادہ نوازتے ہیں، اپ ﷺ نے انصار سے فرمایا :

الا ترضون أن يذهب الناس بالشأة والبعير، وتذهبون برسول الله إلى رحالكم

کیا تم لوگ اس بات پر راضی نہیں کہ لوگ تو اپنے ہمراہ بکریاں اور اونٹ لیکر جائیں اور تم اپنے سات رسول اللہ کی سواری لے کر اپنے گھر لوٹو؟
حسان اس فران نبوی ﷺ کے آنے سے پہلے ہی اشعار کہہ چکے تھے۔

وآت الرسول فقل يا خير مؤتمن
للمؤمنِن   إذا   ما   عُدِّل  البشر
علام    تُدعى سليم وءي نازحة
أمام قوم هُمُ   آووا وهم نصروا

اس کے بعد رسول ﷺ نے انصار کو جمع کیا اور مذکورہ باتیں عرض کیں، حسان نے آپ کے انتقال کے بعد غم میں ڈوبے ہوئے اشعار کہے، ابوبکر ؓ کی مدح کی، حسان کا پورے عرب و عجم میں سب سے مشہور اور عمدہ شعر ہے اللہ کے رسول کی وہ مدح جس میں انہوں نے کہا تھا

وأحسن منك لم تر قط عيني
وأجمل  منك  لم تلد   النساء
خلقت مبرءا من كل عيب
كأنك قد   خلقت كما  تشاء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے